Also Read
اپنے گزرے ہوئے لمحات ذرا یاد کرو
روز ہوتی تھی ملاقات ذرا یاد کرو
کیا سہانی تھی گھڑی کیسا سہانا موسم
چاند تاروں کی حسیں رات ذرا یاد کرو
تم اگر بھول گئے ہو تو کوئی بات نہیں
اس انگوٹھی کی وہ سوغات ذرا یاد کرو
چھت پہ آ جاتے تھے کپڑوں کا بہانا کر کے
کیا محبت کے تھے جذبات ذرا یاد کرو
میری مرضی میں ہوا کرتی تھی تیری مرضی
کتنے ملتے تھے خیالات ذرا یاد کرو
کس قدر میری محبت کے زمانہ تھا خلاف
بس اکیلی تھی مری ذات ذرا یاد کرو
غم کے بادل جو اٹھا کرتے تھے دل پر عارفؔ
اپنے اشکوں کی وہ برسات ذرا یاد کرو
سید عارف علی عارف
आप सभी से निवेदन है कि सही कमेंट करें, और ग़लत शब्दों का प्रयोग ना करें